تکامل کی کچھ خاص تعبیرات کے ذریعے تعریف کی گئی هیں جیسا که : کھُلنا، کھِلنا اور پھیلنا ۔ ایک کلی جب پھول بن جاتی هے یا ایک بچه جب ایک کامل انسان بن جاتا هے تو ایسا هے که بند تھا کھُل گیا هے اور وسعت پائی هے۔ لیکن یه سب تکامل کے آثار هیں نه خود تکامل ، ابتداء میں ایک قسم کی تکاملی تبدیلیاں اس چیز کے جوهر اور درون میں واقع هوتی هے پھر یه آثار ظاهر هو جاتے هیں۔
بعض سائنسدانوں نے بغیر اس کے که تکامل کی ماهیت سے بحث کرنے کو ضروری جانے اس کے لئے کچھ قوانین کو ذکر کئے هیں ۔ هربرت اسپنسر کهتا هے :
“قانون تکامل کا پهلا اصل “تراکم”(جمع هونا) هے۔ یعنی یه که مواد کا ایک مجموعه کسی جگه جمع هوجائیں مثلا نطفے کے ابتدائی خلیے جو رحم مادر میں مرتب اضافه اور بڑھتے هو ئے “تراکم” کے مرحلے کو طے کرتے هیں۔ دوسرا قانون “تنوع” هے یعنی یه که جمع شدہ اجزاءکا هر گروه ایک خاص شکل اور وظیفه کو حاصل کرتا هے اور ان کے درمیان ایک قسم کا اختلاف اور نا هم آهنگی پیدا هوجاتی هے۔ جس طرح نطفه رحم مادر میں ایک مدت تک اضافہ هونے اور خلیوں کے ایک مجموعے کو فراهم کرنے کے بعد اس میں تنوع اور جز جز هونے کی حالت پیدا هو جاتی هے اور هر جز ایک عضو کو تشکیل دیتا هے۔
بنابراین، حرکت کے ایک مصداق میں ایک فعلیت کا امکان هوتاهے، جو خود حرکت سے خارج هے ۔
دانلود پایان نامه - مقاله - پروژه

تیسرا قانون “انتظام”هے۔ تمام اعضاء اور اجزاء تمام تر اختلاف اور تنوع کے باوجود ایک خاص نظام کی پیروی اور ایک هی هدف کے لئے کام کرتے هیں”۔[۳۴]
حقیقت یه هے که یه تمام ایک جوهری قوت کے رشد اور نمو کے مظاهر اور آثار هیں جو شئ کی حقیقت کو بیان کرتی هے۔ بنابراین تکامل کو ان موارد میں منحصر نهیں کرنا چاهئے۔
فلسفیانہ نقطه نگاه سے هر حرکت تکامل هے ۔ کیونکه تمام حرکت قوه سے فعل کی طرف خارج هوناهے۔ اور قوه سے فعل کی طرف خارج هونا مساوی هے نقص سے کمال کی طرف خارج هونے کا۔نقص سے کمال کی طرف خارج هونا جهاں پر حیاتی اورجوهری توانائی موجود هو جس کے ذریعے مواد کا کھُلنا ، پھیلنا، جمع هونا، اورتنوع لازمی هوتاهے۔ ضروری نهیں هے جهاں بھی تکامل هو ان آثار کوبھی مشاهده کریں۔
یهاں پر ذهن میں ایک اشکال پیش آتا هے وه یه هے که اگر تمام حرکت تکامل هو تو لازم آتا هے که تمام حرکت اشتدادی هو حالانکه بعض حرکت مانند مکانی اور وضعی حرکت اشتدادی نهیں هیں ۔ مثلا جب ایک جسم ایک نقطه سے دوسرے نقطے کی طرف منتقل هوتا هے یا جب اپنے گرد گھومتا هے کسی بھی صورت میں اس کے مکان یا وضع میں اضافه نهیں هوا هے پس صحیح نهیں هے که هم کهیں که حرکت تکامل کے مساوی هے۔
جواب یه هے که حرکت تکامل کے مساوی هے ۔ مکانی اور وضعی حرکت میں همیشه دو سلسلے (جریان) ایک دوسرے کے کنارمیں اور ایک دوسرےکےہمراہ رونما ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں اشتداد رونما نهیں هوتا۔ ان دو سلسلوں میں سے ایک تکامل هے اور دوسرا تنزل۔
توضیح یه هے که جسم بُعد رکھنے کی وجه سے جب بھی کسی تازه مکان یا حالت کو گھیرنا چاهتا هے یا اگرایک مکان یا ایک وضع کی بالقوه حالت سے اس مکان یا وضع کی بالفعل حالت کو اختیار کرنا چاهتاهے تو ناچار اسے پهلے مکان اور وضع کو چھوڑنا پڑیگا تاکه ایک جدید مکان اور وضع کو گھیر لے۔ ایک جدید مکان اور وضع کے حاصل اور کسب کرنے کی جهت سے تکامل تو هے لیکن چونکه جدید مکان اور وضع کو گھیرتے وقت سابق مکان اور وضع کو چھوڑ دیتا هے لہذااشتداد وجود میں نهیں آتا هے۔
اس فعلیت کے حاصل هونے کے بعد حرکت ختم هوجاتی هے اور فعلیت امکان کی جگه لے لیتی هے اور یهی فعلیت حرکت کی غایت ، مقصد اور هدف هے۔(۱)

اشتداد اس وقت وجود میں آتا که شئ جدیدحالت کو گھیرتے وقت سابق حالت کو حفظ کر ے لیکن اگر سابق حالت کو اپنی حالت پر چھوڑ دے تو باوجود اس کے که جدید حالت کے لحاظ سے قوه سے فعل اور نقص سے کمال کی طرف حرکت کیا هے اشتداد حاصل نهیں هوتا هے۔ بالکل ایسا هی هے که اگر کوئی سرمایه دار ایک دن ایک کاروبار میں نفع حاصل کرے اور دوسرے معاملے میں اسی مقدار میں نقصان اٹھائے نتیجے میں سرمایه کی مقدار میں کوئی تبدیلی نهیں آئیگی۔ یا اس طرح هے که ایک برتن میں معین مقدار میں پے درپے پانی ڈال دیں اور برتن کے ایک جگه سے اسی مقدار میں پانی خارج هوجائے تو نتیجے میں پانی اسی مقدار میں ثابت رهے گا۔ (پانی کی مقدار میں کوئی اضافه نهیں هوگا)
بهر حال جهاں پر بھی حرکت هے تکامل هے لیکن اگر حرکت اور تکامل اشیاء کی جوهر میں واقع هو جائے تو کبھی خاص آثار مانند کھُلنا، پھیلنا، تنوع، انتظام اور وسعت وغیره پیدا هوجاتے هیں۔
(۱) تکامل سے مربوط مسائل میں سے ایک یه هے که آیا تکامل هدف رکھتا هے یا نهیں ؟ البته اصل هدف داری طبیعت(یعنی طبیعت کا هدف مند هونا) جسے “اصل علیت غائیه” نام رکھتے هیں اصل تکامل کے تابع نهیں هے اور خود ایک جداگانه بحث هو سکتی هے۔ لیکن اس جهت سے که هم جهاں کو حرکت کے مساوی اور حرکت کو تکامل کے مساوی سمجھتے هیں۔ تکامل کے هدفمند هونے کی بحث وهی جهاں کے هدفمند هونے کی بحث ،یعنی اصل علیت غائیه اور جدید اصطلاح میں “فینالیسم” هو جائیگی۔
جیسا که هم جانتے هیں که ارسطو چار علتوں کا قائل هے اور مدعی هے که هر مادی موجود چار عامل :فاعل، غایت، ماده اور صورت سے وجود میں آتا هے ۔ ارسطو کی ان چار علتوں کے بارے میں بهت زیاده گفتگو هوئی هے خصوصا علت غائی کے بارے میں۔ یهاں سے خدا پرستوں اور ماده پرستوں کا راسته جدا هوجاتا هے ۔ بو علی سینا کهتا هے : “غایت سے بحث فلسفه کے عالی ترین مباحث میں سے هے”۔
گذشته بیان سے یه نتیجه لیتے هیں که:
۱ – حرکت بغیر غایت کے نهیں هوسکتی۔
۲ – حرکت ذاتاً (خود بخود اور اپنے لئے ) مطلوب نهیں هو سکتی۔
۳ – اگر کسی حرکت کے لئے کوئی موضوع فرض کریں تو مفروضه موضوع اپنی حرکت کے ذریعے تکامل پاتا هے۔

دوسری طرف سے حکماء حرکت کے لئے چھ رکن کے قائل هیں:
۱ – مامنه (مبداء اورنقطه آغاز)
۲ – ماالیه (غایت اور هدف)
۳ – ما عنه (فاعل)
۴ – ما به ( موضوع)
۵ – ما فیه (مقوله)
۶ – ما علیه (زمان)
کهتے هیں هر حرکت خواسته یا ناخواسته ان چھے چیزوں کی محتاج هے ۔ ان چھے چیزوں سے بعد میں تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ ان چھے چیزوں میں سے ایک غایت هے۔
پس ایک طرف سے ارسطو اور اس کے پیروکاروں کے مطابق هر مادی موجود علت غائی رکھتا هے۔ خواه حرکت کے ذریعے وجود میں آئے یا کسی اور طریقے سے۔ دوسری طرف سے خود حرکت غایت کی محتاج هے۔
اس جهت سے که هم نے اپنی گذشته بحثوں میں ثابت کیا هے که حرکت، تکامل کے مساوی هے ۔ پس هماری نظر میں حرکت کی غایت رکھنے کی بحث تکامل کے هدفمند هونے کی بحث بھی هے۔ چونکه هماری نظر میں کائنات حرکت کے مساوی هے پس حرکت اور تکامل کے هدف کی بحث کائنات کے هدفمند هونے کی بحث هے۔
۴ – اگر تمام مادی چیزوں کے لئے “حرکت “ کو اثبات کریں (جیسا که پهلے اس کی طرف اشاره هوا) تو مندرجه ذیل نظریه ثابت هو جائے گا۔
“طبیعی کائنات کا عمومی قانون تحول اور تکامل هے”

البته ضروری هے که یه نکته واضح هو که تکامل کے هدفمند هونے کے بارے میں هم دو قسم کی بحث کر سکتے هیں:
۱ – سائنسی ۲ – فلسفی
اگر هم سائنسی پهلو سے گفتگو کرنا چاهیں تو ضروری هے که موجودات خصوصا زنده موجودات کے احوال کے بارے میں تحقیق کریں اور ترقی اور وه عوامل جو اس ترقی کےلئے سبب بنے هیں کی طرف بھی نظر کریں تاکه هم عملی طورپرانکشاف کریں که آیا ماده ایک هدفمند سلسلے کو طے کرتا هے یا نهیں؟
جیسا که هم قدیم الایام سے جانتے هیں که خلقت کا متقن اور مستحکم نظام همیشه اصل علیت غائیه کے اثبات کے لئے ایک واضح اور قاطع دلیل شمار هوتا هے ۔ لیکن جب سے انواع کے تبدل اور ارتقاء کا نظریه وجود میں آیا اور سائنسدانوں نے مادی اصول اور قواعد کے ایک سلسلے کو جانداروں کے ارتقاء کے لئے کشف کیا هے ، یه نظریه پیدا هوا که جانداروں کی بناوٹ کے شگفت انگیز اور حیران کننده نظام کی توجیه کے لئے ضروری نهیں هے که اصل علت غائی کو دخالت دیں۔ لیکن جنهوں نے اس مسئلے میں زیاده دقت کی هیں ثابت کئے هیں که اصل علت غائیه کی دخالت کے بغیر جانداورں کا تکامل کسی بھی صورت میں قابل توجیه نهیں هے اور اصطلاحا یه لوگ اصل تکامل کے هدفمند هونے کے حامی هوئے هیں۔ یه بحث ایک دلکش اور جاذب بحث هے۔ ماده کے هدفمند هونے کےبارے میں سائنسی اور حیاتی بحث ایک جالب اور وسیع بحث هے۔جس میں وارد هونا اس مقاله کی حدود سے خارج هوناهے ۔ هم آپ کو ان کتابوں کے بارے میں جو اس بارے میں لکھی گئی هیں راهنمائی کرتے هیں۔ جیسا که لکنت دونوئی کی کتاب سرنوشت بشر جس کا عبدالله انتظام نے ترجمه کیا هے۔میڈیکل کالج کے تشریح کاری کے استاد اورپیرس کے میڈیکل اکیڈمی کے رکن روویر کی کتاب حیات اور هدف­مندی جس کا ڈاکٹر عباس شیبانی نے ترجمه کیا هے۔

کائنات میں تکامل کا تجربه

مذکوره قانون جیسا که فلسفه میں مسلم اور مورد قبول هے آج کے سائنسدانوں نے بھی اسے قبول کیا هے۔ کیونکه جو تجربات انسان، حیوان اور نباتات کے بارے میں ان سے متعلقه فنون میں انجام پائیے هیں بتاتے هیں یه انواع ایک هی حالت میں باقی نهیں رهتے بلکه همیشه تکامل کی طرف تگ و دو میں هوتے هیں اور اپنے مادی نواقص اور ضرورتوں کو روز بروز بهتر انداز میں پورا کرتے هیں اور همیشه طبیعت کے ساتھ برسر پیکار رهتے هیں۔

لیکن اس مطلب کا فلسفی راسته وهی هے جو اس مقاله میں طے هوا هے۔ اگر اس راستے سے داخل هونا چاهیں تو حرکت کی ماهیت کی عقلانی تحلیل همیں جانداروں کے حالات میں تجسس کی طرف محتاج هوئے بغیر اس نتیجے تک پهنچاتی هے۔
حرکت کے ذریعے غایت فلسفی کا اثبات اس طرح هے که:
اولاً: چنانچه پهلے ثابت هوا که حرکت اپنی ذات میں ایک بسیط امر هےاور اس کے سارے اجزاء فرضی اور اعتباری هیں۔ اگر حرکت کو مسافت یا زمان کے اجزاء کے حساب سے تقسیم کریں تو وه اجزاء اور اقسام واقعا ایک دوسرے سے جدا نهیں هیں۔ پس هر حرکت ایک واقعیت هے۔
ثانیاً: حرکت اگرچه خود ایک قسم کی فعلیت هے کیونکه اگر اسے سکون کے مقابلے میں قرار دیں تو فعلیتوں میں سے ایک فعلیت هے۔لیکن باقی تمام فعلیتوں سے یه تفاوت رکھتی هے که یه فعلیت قوه سے مخلوط هے۔ شئ جب تک حرکت میں هے بالقوه هے اور اس کے پیچھے ایک فعلیت رکھتی هے۔ لهذا حرکت کو کمال اول نام رکھا گیا هے نه کمال ثانی اور کها گیا هے که: “بالقوه شئ کے لئے کمال اول هے” یعنی جب تک شئ دوسری شئ کی نسبت جسے کمال ثانی کهتے هیں حالت بالقوه نه رکھتی هو حرکت نهیں کر سکتی ۔ اس بنا پر حرکت طلب هے مطلوب نهیں هے۔ دوسرے لفظوں میں حرکت ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل هونا هے لیکن حالات میں سے ایک حالت نهیں هے۔ فرض کریں هم اسکو حالت مان لیں تو باقی تمام حالات سے یه تفاوت رکھتی هے که یه کسی دوسرے حالت تک پهنچنے کے لئے وسیله هے ۔
پس جب بھی هم حرکت کو اس عنوان سے دیکھیں گے تو اپنے سے باهر ایک فعلیت کو لازمی طور پر رکھتی هے پس محال هے خود حرکت موجوه قووں کی فعلیت کا ملاک قرار پائے۔ اسی طرح هے هر وه چیز – خواه عرض هو یا جوهر- جس کا وجود حرکت کے مساوی هے ۔
مخصوصا بنی نوع انسان کی طولانی اور تاریخی زندگی میں تحقیق اور دور حاضر کا انسان اور ابتدائی انسان کے درمیان موازنه کرنے سے یه حقیقت مزید واضح هوجاتی هے۔(۱)

پس همیشه وه فعلیت جس کابالقوه شئ خواهاں هے ماورائے حرکت ایک واقعیت هے که جس تک پهنچنا حرکت کا انجام هے اور متحرک شئ حرکت کو اس تک پهنچنے کا وسیله قرار دیتی هے اور وهی هے متحرک کی غایت اور مقصد اور وهی هے شئ متحرک کا واقعی اور حقیقی کمال (کمال ثانی)۔ پس هر حرکت اور تکامل اپنی حرکت سے باهر ایک غایت کی تلاش میں هے ۔

موضوعات: بدون موضوع  لینک ثابت


فرم در حال بارگذاری ...